Sunday, 26 April 2015

لہو میں ناچتی وحشت خراج مانگتی ہے

لہو میں ناچتی وحشت خراج مانگتی ہے
شکستہ پائی بھی اپنا بیاج مانگتی ہے
بہم کریں بھی تو کب تک اِسے لہو کی رسد
ہوس کی منڈی بدن کا اناج مانگتی ہے
غریبِ شہر نے خون سے جو فصل سینچی تھی 
امیرِ شہر کا اب تخت و تاج مانگتی ہے
میں تھک چکا ہوں سُلا دو کہیں تھکن میری
کہ ماں کے ہاتھوں کا اب یہ مساج مانگتی ہے
قفس دکھاؤ، سرِ دار مجھ کو لے جاؤ
جنوں کی لہر بھی اپنا سماج مانگتی ہے
کہاں سے رنگِ تغزل کو لاؤں تلخی میں
یہ شاعری بھی تو حُسنِ مزاج مانگتی ہے
کہیں سے کوئی مسیحا نفس تلاش کرو
ہماری خستہ دلی بھی اب علاج مانگتی ہے
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ کرن اجالوں کی
کہ گھر کی تیرہ شبی اب سراج مانگتی ہے

تبسم نواز

No comments:

Post a Comment