لہو میں ناچتی وحشت خراج مانگتی ہے
شکستہ پائی بھی اپنا بیاج مانگتی ہے
بہم کریں بھی تو کب تک اِسے لہو کی رسد
ہوس کی منڈی بدن کا اناج مانگتی ہے
غریبِ شہر نے خون سے جو فصل سینچی تھی
میں تھک چکا ہوں سُلا دو کہیں تھکن میری
کہ ماں کے ہاتھوں کا اب یہ مساج مانگتی ہے
قفس دکھاؤ، سرِ دار مجھ کو لے جاؤ
جنوں کی لہر بھی اپنا سماج مانگتی ہے
کہاں سے رنگِ تغزل کو لاؤں تلخی میں
یہ شاعری بھی تو حُسنِ مزاج مانگتی ہے
کہیں سے کوئی مسیحا نفس تلاش کرو
ہماری خستہ دلی بھی اب علاج مانگتی ہے
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ کرن اجالوں کی
کہ گھر کی تیرہ شبی اب سراج مانگتی ہے
تبسم نواز
No comments:
Post a Comment