کوئی یہ زاہد سے جا کے کہہ دے کہ رسم الٹی شباب کی ہے
ثواب میں ہے گُنہ کی لذت، گُنہ میں لذت ثواب کی ہے
رُخِ منور پہ درحقیقت مثال ایسی نقاب کی ہے
مہِ دو ہفتہ کے روئے روشن پہ جیسے چادر سحاب کی ہے
کچھ ایسی توبہ شکن ہر اک بات اس بتِ لاجواب کی ہے
ان آنسوؤں کا گلہ نہ سمجھو یہ دل سے تنگ آ کے گر رہے ہیں
اسی نے رسوا کیا ہے ہر سُو، اسی نے مٹی خراب کی ہے
یہی وہ کوزہ ہے دل کہ رہتے ہیں بند جس میں ہزار دریا
یہی وہ ذرہ ہے درحقیقت کہ جس میں ضو آفتاب کی ہے
نقاب روئے حسیں اٹھا کر نہ اس طرح ہم کو بھول جاؤ
مرادیں دل کی بھی پوری کر دو اگر نظر کامیاب کی ہے
کہاں کی جنت کدھر کا دوزخ کدھر کی دنیا کہاں کی عقبیٰ
یہ سب فسانہ یہ سب کہانی سحرؔ فقط شیخ و شباب کی ہے
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
No comments:
Post a Comment