Saturday, 18 April 2015

دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں

دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں
ہو خیر ٹہنیوں کی، ہوا کی نظر میں ہیں
ہر اک قبا سے تمغۂ ہجرت اتار دو
ہم لوگ بھائی بھائی ہیں اور اپنے گھر میں ہیں
تیغِ ستم پہ خون سے تحریر ہو گئیں
وہ جرأتیں نہاں جو بدن کی سِپر میں ہیں
سن غور سے گھڑی کی صدا رہ نوردِ زیست
لمحۂ ازل سے جانبِ منزل سفر میں ہیں
تہذیب کے قفس میں ہیں انسان جانور
ہم لوگ قید، دہر کے اس چڑیا گھر میں ہیں

سبط علی صبا

No comments:

Post a Comment