دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں
ہو خیر ٹہنیوں کی، ہوا کی نظر میں ہیں
ہر اک قبا سے تمغۂ ہجرت اتار دو
ہم لوگ بھائی بھائی ہیں اور اپنے گھر میں ہیں
تیغِ ستم پہ خون سے تحریر ہو گئیں
وہ جرأتیں نہاں جو بدن کی سِپر میں ہیں
سن غور سے گھڑی کی صدا رہ نوردِ زیست
لمحۂ ازل سے جانبِ منزل سفر میں ہیں
تہذیب کے قفس میں ہیں انسان جانور
ہم لوگ قید، دہر کے اس چڑیا گھر میں ہیں
ہو خیر ٹہنیوں کی، ہوا کی نظر میں ہیں
ہر اک قبا سے تمغۂ ہجرت اتار دو
ہم لوگ بھائی بھائی ہیں اور اپنے گھر میں ہیں
تیغِ ستم پہ خون سے تحریر ہو گئیں
وہ جرأتیں نہاں جو بدن کی سِپر میں ہیں
سن غور سے گھڑی کی صدا رہ نوردِ زیست
لمحۂ ازل سے جانبِ منزل سفر میں ہیں
تہذیب کے قفس میں ہیں انسان جانور
ہم لوگ قید، دہر کے اس چڑیا گھر میں ہیں
سبط علی صبا
No comments:
Post a Comment