Thursday 23 April 2015

ہم بھی ہیں دیدۂ خونبار کو دھونے والے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

ہم بھی ہیں دِیدۂ خوں بار کو دھونے والے
اِس طرف دیکھ نئے زخم پرونے والے
کربلا تیرے مقدر کا ستارہ جاگا
آن پہنچے ہیں تِری خاک پہ سونے والے
اب یہاں پر کئی شہکار نظر آئیں گے
آ گئے دشت کی مٹی کو بھگونے والے
فصلِ گِریہ نے عجب رنگ جمایا ہے یہاں
گھر سے گلیوں میں نکل آئے ہیں رونے والے
قتلِ شبیرؓ پہ دیتے ہیں مبارکبادیں
پشتِ بیمار پہ یہ نیزے چبھونے والے
کربلا فرشِ زمیں پر بھی فلک جیسی ہے
کام ہوتے ہیں یہاں سارے نہ ہونے والے
دیکھ عباسؓ نے مشکیزہ اٹھایا ہوا ہے
دیکھ عباسؓ ہیں دریا کو ڈبونے والے

عارف امام

No comments:

Post a Comment