مخملی رات میں اکثر سرِ صحرا کوئی
مجھ پہ کرتا رہا میری طرح گِریہ کوئی
یہ تِرا ہِجر ہے یا رحل پہ رکھا ہوا دکھ
یہ کوئی تو ہے کہ اترا ہے صحیفہ کوئی
ریل کی پٹڑی پہ چلتے ہوئے وقتِ رخصت
میرے ہونٹوں پہ تھی ہِجرت کی مقدس آیت
رات پیروں سے لِپٹتا رہا سایہ کوئی
میں نے مانگے تھے فقط خواب مِرے ربِ رحیم
میں نے کیا مانگ لیا تجھ سے زیاده کوئی
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment