Thursday 30 April 2015

ہمنشیں پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے

ہمنشیں پوچھ نہ مجھ سے کہ، محبت کیا ہے
اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ
تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ
پھر رہا ہے مِرا سر گردشِ ایام کے ساتھ
سن! کہ نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں
قہقہے گونج رہے ہیں یہاں، کہرام کے ساتھ
پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں رِیا
اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ
کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے
کامیابی کی تمنا، دلِ ناکام کے ساتھ
یاس آئینۂ امید میں نقاشِ الم
پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ
شب ہی کچھ نازکشِ پرتوِ خورشید نہیں
سلسلہ صبحِ دل افروز کا ہے شام کے ساتھ
ہے تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت
وعدۂ خلدِ برِیں کشتۂ آلام کے ساتھ
کون معشوق ہے، کیا عشق ہے، سودا کیا ہے
میں تو اس فکر میں گم ہوں، کہ یہ دنیا کیا ہے

احسان دانش 

No comments:

Post a Comment