Sunday 19 April 2015

میں کب جہاں سے طلب گار مال و زر کا تھا

میں کب جہاں سے طلبگار مال و زر کا تھا
مِرا سوال محبت کی اک نظر کا تھا
تِرا وصال میسر تھا چند لمحوں تک
پھر ایک ہجر تھا اور وہ بھی عمر بھر کا تھا
مجھے تباہ کوئی غیر خیر کیا کرتا
جو پیش پیش تھا دشمن وہ میرے گھر کا تھا
ثمر سبھی نے سمیٹے سبھی نے پھول چنے
کوئی نہ بانٹ سکا کرب جو شجر کا تھا
امیرؔ آئی تھی ساعت عدم توازن کی
پھر اس کے بعد اِدھر کا نہ میں اُدھر کا تھا

رؤف امیر

No comments:

Post a Comment