Saturday 18 April 2015

عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے

عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے
جس کے حلقے کھل نہیں سکتے کسی تدبیر سے
اور ہی کچھ ہو شبِ فرقت کے کٹنے کی سبیل
دل تصوّر سے بہلتا ہے، نہ اب تصویر سے
خط اسے مت کہہ، یہ لکھا ہے مِری تقدیر کا
ربط ہے دل کو تمہاری شوخئ تحریر سے
زندگی بھر اک سہانا خواب ہم دیکھا کئے
تیری صورت مِل گئی اس خواب کی تعبیر سے
اس نگاہِ ناز پر صدقے دل و جاں ہو گئے
آپ نے دیکھا، نشانے دو اڑے، اک تیر سے
اب تو بس دو ہچکیوں کی بات باقی رہ گئی
آپ نے پوچھا مجھے، لیکن بڑی تاخیر سے
دل کی تنہائی کے سنّاٹے میں تنہا تھا نصیرؔ
وہ تو کھو جاتا، مگر تم مِل گئے تقدیر سے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment