عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے
جس کے حلقے کھل نہیں سکتے کسی تدبیر سے
اور ہی کچھ ہو شبِ فرقت کے کٹنے کی سبیل
دل تصوّر سے بہلتا ہے، نہ اب تصویر سے
خط اسے مت کہہ، یہ لکھا ہے مِری تقدیر کا
زندگی بھر اک سہانا خواب ہم دیکھا کئے
تیری صورت مِل گئی اس خواب کی تعبیر سے
اس نگاہِ ناز پر صدقے دل و جاں ہو گئے
آپ نے دیکھا، نشانے دو اڑے، اک تیر سے
اب تو بس دو ہچکیوں کی بات باقی رہ گئی
آپ نے پوچھا مجھے، لیکن بڑی تاخیر سے
دل کی تنہائی کے سنّاٹے میں تنہا تھا نصیرؔ
وہ تو کھو جاتا، مگر تم مِل گئے تقدیر سے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment