Friday, 3 April 2015

مسافر اور تیرا کام کیا ہے

چلا چل مہلت آرام کیا ہے
مسافر اور تیرا کام کیا ہے
ہمارا واسطہ ہے ان کے ڈر سے
ہمیں سارے جہاں سے کام کیا ہے
تمہارا حسن تو ہے غیر فانی
ہمارے عشق کا انجام کیا ہے
خدا کا نام لینا چاہتا ہوں
مگر میرے خدا کا نام کیا ہے
سوادِ شام مے خانہ سلامت
بیاضِ جامۂ احرام کیا ہے
تم اپنے آئینے سے پوچھ لیتے
ہمارے عشق پر الزام کیا ہے
ہمیں خود راستہ چلنا نہ آیا
فراز و پست پر الزام کیا ہے
سنو اے آشیاں کے خشک تنکو
بہارِ باغ کا پیغام کیا ہے
خرد کے مسئلے حل کرنے والو
تمہیں میرے جنوں سے کام کیا ہے
خبر خود موج طوفاں کو نہیں ہے
سفینے کا مِرے انجام کیا ہے
بہ راہِ راست ان کو مانگتا ہوں
تکلف کا دعا میں کام کیا ہے
حدِ پرواز جب سمٹی تو سمجھے
قفس کیا، آشیاں کیا، دام کیا ہے
صبا ترکِ محبت کر رہے ہو
محبت سے ضروری کام کیا ہے

صبا اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment