Thursday 9 April 2015

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر
زخمِ ہستی کی کسک سے ہے نشانہ بے خبر
نگہتوں کے سائے میں ٹوٹے پڑے ہیں چند پھول
بجلیوں کی یورشوں سے آشیانہ بے خبر
حسنِ برہم کو نہیں حالِ پریشاں سے غرض
سازِ دل کی دھڑکنوں سے ہے زمانہ بے خبر
دونوں عالم وسعتِ آغوش کی تفسیر ہیں
دیکھنے میں ہے نگاہِ مجرمانہ بے خبر
آپ اپنے فن سے ناواقف ہے ساغرؔ کی نظر
لعل و گوہر کی ضیاؤں سے خزانہ بے خبر

ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment