اپنے گھر سے چل پڑنا محفلوں کی حسرت میں
راستوں میں رہ جانا منزلوں کی حسرت میں
دیر تک کھڑے رہنا باغ کے اندھیرے میں
دیر سے جدا رہتے دلبروں کی حسرت میں
اس کی بے وفائی بھی مستقل نہیں ہوتی
کُوک ہے یہ کوئل کی، یا پکار ازلوں سے
انت کی اداسی کی رونقوں کی حسرت سے
ضِد منیرؔ کیوں بنئے حال کے زمانے کی
اور اک زمانے کے موسموں کی حسرت میں
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment