Friday 10 April 2015

اپنے گھر سے چل پڑنا محفلوں کی حسرت میں

اپنے گھر سے چل پڑنا محفلوں کی حسرت میں
راستوں میں رہ جانا منزلوں کی حسرت میں
دیر تک کھڑے رہنا باغ کے اندھیرے میں
دیر سے جدا رہتے دلبروں کی حسرت میں
اس کی بے وفائی بھی مستقل نہیں ہوتی
دل سدا وہ رکھتا ہے دو رُخوں کی حسرت میں
کُوک ہے یہ کوئل کی، یا پکار ازلوں سے
انت کی اداسی کی رونقوں کی حسرت سے
ضِد منیرؔ کیوں بنئے حال کے زمانے کی
اور اک زمانے کے موسموں کی حسرت میں​

منیر نیازی​

No comments:

Post a Comment