Saturday 11 April 2015

آنے والی تھی خزاں، میدان خالی کر دیا

آنے والی تھی خزاں، میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شہر نے سارا لان خالی کر دیا
ہم تیرے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ، تیرا قصرِ عالیشان خالی کر دیا
دشمنوں سے شِست باندھی خمیۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا
بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا
لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان، خالی کر دیا
ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دلان خالی کر دیا
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کے لکھ لئے
ایک لڑکی نے میرا دیوان خالی کر دیا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment