Tuesday 7 April 2015

دنیا سے شکایت ہے نہ تجھ ہی سے خفا ہوں

دنیا سے شکایت ہے، نہ تجھ ہی سے خفا ہوں
قسمت کی عنایت ہے جو تنہا میں کھڑا ہوں
پلکوں پہ جگہ پائی، نہ دامن میں بسا ہوں
اک اشکِ ندامت تھا، سرِ خاک گِرا ہوں
دل پر تو تِری یاد کے بادل کا ہے سایہ
سر پر ہے کڑی دھوپ، جسے جھَیل رہا ہوں
مشروط رہی تیری نگاہوں سے مِری زیست
اک پَل میں جیا ہوں تو، میں اک پَل میں مِرا ہوں
حالات کی دلدل میں کہاں اتنا مجھے ہوش
محفل ہے تِری، یا کہ سرِ راہ پڑا ہوں
لمحۂ مسرّت کی طلب میری خطا تھی
اب غم کے بیابان میں زنجیر بپا ہوں
صیاد کر اغماض، ہوا محوِ فغاں جو
ناواقفِ آدابِ قفس تھا، کہ نیا ہوں
اک عمر سے ہے اپنی حقیقت کی مجھے کھوج
اب کون بتائے میں بھلا کون ہوں، کیا ہوں
منزل تو نہیں زینؔ، یہ دنیا ہے سرائے
میں ایک مسافر ہوں، گھڑی بھر کو رکا ہوں

اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment