Tuesday 7 April 2015

ساتھ چھوٹا جو ترا تو چلے آئے آنسو

ساتھ چھُوٹا جو تِرا تو چلے آئے آنسو
ہم نے کب شوق سے آنکھوں میں بسائے آنسو
کتنے انمول نظارے تھے نظر کے طالب
چشمِ بے داد کو بھائے بھی تو بھائے آنسو
جو بدلتا تھا بساطِ غمِ ہستی، ہنس کر
اب کہ چپ چاپ کھڑا ہے، وہ سجائے آنسو
ہے مقدر کی مدارات، کہ چاہت کا صِلہ
خواب ہی خواب جہاں تھے، وہاں پائے آنسو
اپنے ہی سُود و زیاں کو سبھی روتے ہیں یہاں
کون پلکوں پہ سجاتا ہے پرائے آنسو
زندگی جنگ ہے، جیتے گا یہاں زینؔ وہی
جس نے آنکھوں کے دریچوں سے ہٹائے آنسو

اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment