Sunday 12 April 2015

ترے شہر میں یہ کمال ہونا تھا ہو گیا

تِرے شہر میں یہ کمال ہونا تھا، ہو گیا
مِرا دل غموں سے نڈھال ہونا تھا، ہو گیا
کسی مصلحت کو عروج ملنا تھا، مل چکا
کوئی عشق، رُو بہ زوال ہونا تھا، ہو گیا
کوئی درد ملنا تھا، مل چکا ہے جو دیر سے
کوئی چہرہ خواب و خیال ہونا تھا، ہو گیا
تِرے وصل میں وہ جو لمحے کٹنے تھے، کٹ گئے
وہ جو غم سے رشتہ بحال ہونا تھا، ہو گیا
مجھے چھوڑ کر چلے جانے والے کے ہجر میں
مِرا لمحہ لمحہ محال ہونا تھا، ہو گیا
تُو جواب دے کہ نہ دے اب اے مِرے خوبرو
تِرے رو برو جو سوال ہونا تھا، ہو گیا
چلو احمدؔ اب نئے موسموں سے ملیں جلیں
گئی رُت کا جتنا ملال ہونا تھا، ہو گیا

احمد فرید

No comments:

Post a Comment