Monday, 13 April 2015

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا بدن لہو کا رواں مشتِ پر میں تھا
جاتے کہاں کہ رات کی باہیں تھیں مشتعل
چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا
حدِ افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر
آنسو کا اک پہاڑ سا حائل نظر میں تھا
لو وہ بھی خشک ریت کے ٹیلے میں ڈھل گیا
کل تک جو ایک کوہِ گراں رہگزر میں تھا
پاگل سی اک صدا کسی اجڑے مکاں میں تھی
کھڑکی میں اک چراغ بھری دوپہر میں تھا
اس کا بدن تھا خون کی حِدت میں شعلہ پوش
سورج کا اک گلاب سا طشتِ سحر میں تھا

وزیر آغا

No comments:

Post a Comment