دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا بدن لہو کا رواں مشتِ پر میں تھا
جاتے کہاں کہ رات کی باہیں تھیں مشتعل
چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا
حدِ افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر
لو وہ بھی خشک ریت کے ٹیلے میں ڈھل گیا
کل تک جو ایک کوہِ گراں رہگزر میں تھا
پاگل سی اک صدا کسی اجڑے مکاں میں تھی
کھڑکی میں اک چراغ بھری دوپہر میں تھا
اس کا بدن تھا خون کی حِدت میں شعلہ پوش
سورج کا اک گلاب سا طشتِ سحر میں تھا
وزیر آغا
No comments:
Post a Comment