اتنے چُپ چاپ کبھی رات کے تارے بھی نہ تھے
اور یوں مُہر بہ لب زخم ہمارے بھی نہ تھے
کیسی عُجلت میں کیا اپنوں نے اقرارِ شکست
ہم ابھی پوری طرح جنگ تو ہارے بھی نہ تھے
شب کی تزئین کی خاطر ہمیں جانا ہی پڑا
کاغذی ناؤ تھی، منجدھار میں دم توڑ گئی
پاس پتوار بھی تھی، دُور کنارے بھی نہ تھے
رات تھی، ریت تھی، بے نُور سفر تھا، ہم تھے
سمت ناپید تھی، گردُوں سے اشارے بھی نہ تھے
اس کے پیکر کو سمجھنے میں ہوئی عمر تمام
نقش اس کے ابھی ہم نے تو ابھارے بھی نہ تھے
کیوں زمانے نے ہدف ہم کو بنایا تھا کہ ہم
خاک زادے بھی نہ تھے، راج دُلارے بھی نہ تھے
آ گئے کِرچیاں پھولوں کی لیے آج وہ پھر
ہم نے احسان ابھی ان کے اتارے بھی نہ تھے
وزیر آغا
No comments:
Post a Comment