Tuesday, 14 April 2015

دن گزر گیا اعتبار میں

دن گزر گیا اعتبار میں
رات کٹ گئی انتظار میں
وہ مزا کہاں وصلِ یار میں
لطف جو ملا انتظار میں
ان کی اک نظر کام کر گئی
ہوش اب کہاں، ہوشیار میں
میرے قبضے میں کائنات ہے
میں ہوں آپ کے اختیار میں
آنکھ تو اٹھی پھول کی طرف
دل الجھ گیا حُسنِ خار میں
تجھ سے کیا کہیں کتنے غم سہے
ہم نے بے وفا!تیرے پیار میں
فکرِ آشیاں ہر خزاں میں کی
آشیاں جلا ہر بہار میں
کس طرح یہ غم بھول جائیں ہم
وہ جدا ہوا اس بہار میں

فنا نظامی کانپوری

No comments:

Post a Comment