Sunday, 12 April 2015

یہاں رسم غم کا فروغ درد کا سلسلہ ہی نہیں رہا

یہاں رسمِ غم کا، فروغِ درد کا سلسلہ ہی نہیں رہا
تِرے بعد اب کسی دل میں پیار کا حوصلہ ہی نہیں رہا
تُو جہاں سے بچھڑا تھا آج بھی میں وہیں کھڑا ہوں اے جانِ جاں
تِرے بعد تو میرے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں رہا
مِرا چہرہ گِر کے چٹخ گیا، مِرا دل غموں سے تڑخ گیا
وہ غرورِ عہدِ جمال کیا، مِرا آئینہ ہی نہیں رہا
مِرا نیلِ عصر یہ کہہ کے مجھ کو نِگل گیا مِرے سامنے
کہ اب اس کے دستِ ضعیف میں تو کوئی عصا ہی نہیں رہا
کبھی کھل کے ہنسنا تو کیا کہ خود سے لپٹ کے رو بھی نہیں سکے
بڑے دن ہوئے ہیں فریدؔ خود سے مکالمہ ہی نہیں رہا

احمد فرید

No comments:

Post a Comment