میں اپنی ذات سے انکار کرنا چاہتا ہوں
کہ جو موجود ہے، اس سے مُکرنا چاہتا ہوں
مِرے کاسے میں شاید اک دلاسے کی جگہ ہے
سو اس کو آخری وعدے سے بھرنا چاہتا ہوں
مِری انگشتری میں آخری نیلم بچا ہے
سو تیری مسندِ دل سے اترنا چاہتا ہوں
مِرے ہاتھوں میں اب بھی تین یکے ہیں، مگر میں
بہ پاسِ یار یہ باری بھی ہرنا چاہتا ہوں
حسنؔ اب آخری پھیرا ہے دستِ کوزہ گر میں
مگر میں چاک پر کچھ دن ٹھہرنا چاہتا ہوں
کہ جو موجود ہے، اس سے مُکرنا چاہتا ہوں
مِرے کاسے میں شاید اک دلاسے کی جگہ ہے
سو اس کو آخری وعدے سے بھرنا چاہتا ہوں
مِری انگشتری میں آخری نیلم بچا ہے
سو تیری مسندِ دل سے اترنا چاہتا ہوں
مِرے ہاتھوں میں اب بھی تین یکے ہیں، مگر میں
بہ پاسِ یار یہ باری بھی ہرنا چاہتا ہوں
حسنؔ اب آخری پھیرا ہے دستِ کوزہ گر میں
مگر میں چاک پر کچھ دن ٹھہرنا چاہتا ہوں
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment