بدنامئ حیات سے رنجور ہو گئے
اے یار! تیری بات سے رنجور ہو گئے
یزداں کے حادثات پہ ہم نے کیا یقیں
اپنی شکستِ ذات سے رنجور ہو گئے
مرجھا کے رہ گئی غمِ دشنام کی بہار
ہر رہگزر پہ چُور ہیں انسانیت کے پاؤں
شیشے کی کائنات سے رنجور ہو گئے
اپنوں نے زندگی میں ہراساں کیا مجھے
غیروں کے التفات سے رنجور ہو گئے
ساغرؔ سکون دے گئی دل کی کسک ہمیں
اکثر خوشی کی بات سے رنجور ہو گئے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment