Thursday 9 April 2015

ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر

ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر
دل کے ارماں بھی لائے ہیں تمہاری خاطر
ایسا اک سنگ جو تالیفِ رہِ منزل ہو
منزلیں ڈھونڈ کے لائے ہیں تمہاری خاطر
کتنی ناکام امیدوں کے دِیے پچھلے پہر
ہم نے دریا میں بہائے ہیں تمہاری خاطر
عہدِ روشن کے سخنور نہ بھلائیں گے کبھی
ہم نے وہ سحر جگائے ہیں تمہاری خاطر
ہم نہ چاہیں گے کبھی تختِ جَم و خسرو کے
ہم نے ارماں لٹائے ہیں تمہاری خاطر
ہم وہاں تھے کہ جہاں ساغرؔ و ساقی تھے مدام
دوستوں لوٹ کے آئے ہیں تمہاری خاطر

ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment