ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر
دل کے ارماں بھی لائے ہیں تمہاری خاطر
ایسا اک سنگ جو تالیفِ رہِ منزل ہو
منزلیں ڈھونڈ کے لائے ہیں تمہاری خاطر
کتنی ناکام امیدوں کے دِیے پچھلے پہر
عہدِ روشن کے سخنور نہ بھلائیں گے کبھی
ہم نے وہ سحر جگائے ہیں تمہاری خاطر
ہم نہ چاہیں گے کبھی تختِ جَم و خسرو کے
ہم نے ارماں لٹائے ہیں تمہاری خاطر
ہم وہاں تھے کہ جہاں ساغرؔ و ساقی تھے مدام
دوستوں لوٹ کے آئے ہیں تمہاری خاطر
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment