Tuesday 14 April 2015

ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے

ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے
غزل سنائے تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہ مجھ کو کیا سرِ دنیا دکھائی دیتا ہے
تماشا ہوں کہ تماشا دکھائی دیتا ہے
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
جو ظلمتوں سے گزرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں
نظر نہ آئے تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے
کہاں ہے تُو، تِری زلفوں کا آبشار مجھے
ہزار خواب برستا دکھائی دیتا ہے
ازل سے اب تک زمانہ کچھ بھی کہے
مجھے تو ایک ہی لمحہ دکھائی دیتا ہے
صبا سے پھر ہوئیں باتیں جنابِ صہبا کی
پھر اس گلی کا ارادہ دکھائی دیتا ہے

صہبا اختر

No comments:

Post a Comment