جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی
قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی
غموں کی گرد شاید چھا گئی ہے دل پہ بھی ورنہ
نظر اس آئینے میں تیری صورت کیوں نہیں آتی
نجانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے
تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی
خوشی بھی بانٹتا ہے حسبِ قسمت بانٹنے والا
کسی کے ہاتھ یہ حسبِ ضرورت کیوں نہیں آتی
کبھی ہمت ہوئی تو وضعداری سے یہ پوچھیں گے
جو دل میں ہے لبوں تک وہ شکایت کیوں نہیں آتی
خدایا! سخت منکر ہیں محبت کے یہ زہرہ وش
تِری جانب سے کچھ ان کو ہدایت کیوں نہیں آتی
بہت محدود ہے رقصِ ہوائے گل بھی اے صہباؔ
یہ رقاصہ ضرورت بے ضرورت کیوں نہیں آتی
قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی
غموں کی گرد شاید چھا گئی ہے دل پہ بھی ورنہ
نظر اس آئینے میں تیری صورت کیوں نہیں آتی
نجانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے
تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی
خوشی بھی بانٹتا ہے حسبِ قسمت بانٹنے والا
کسی کے ہاتھ یہ حسبِ ضرورت کیوں نہیں آتی
کبھی ہمت ہوئی تو وضعداری سے یہ پوچھیں گے
جو دل میں ہے لبوں تک وہ شکایت کیوں نہیں آتی
خدایا! سخت منکر ہیں محبت کے یہ زہرہ وش
تِری جانب سے کچھ ان کو ہدایت کیوں نہیں آتی
بہت محدود ہے رقصِ ہوائے گل بھی اے صہباؔ
یہ رقاصہ ضرورت بے ضرورت کیوں نہیں آتی
صہبا اختر
No comments:
Post a Comment