Tuesday 14 April 2015

جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی

جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی
قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی
غموں کی گرد شاید چھا گئی ہے دل پہ بھی ورنہ
نظر اس آئینے میں تیری صورت کیوں نہیں آتی
نجانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے
تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی
خوشی بھی بانٹتا ہے حسبِ قسمت بانٹنے والا
کسی کے ہاتھ یہ حسبِ ضرورت کیوں نہیں آتی
کبھی ہمت ہوئی تو وضعداری سے یہ پوچھیں گے
جو دل میں ہے لبوں تک وہ شکایت کیوں نہیں آتی
خدایا! سخت منکر ہیں محبت کے یہ زہرہ وش
تِری جانب سے کچھ ان کو ہدایت کیوں نہیں آتی
بہت محدود ہے رقصِ ہوائے گل بھی اے صہباؔ
یہ رقاصہ ضرورت بے ضرورت کیوں نہیں آتی

صہبا اختر

No comments:

Post a Comment