Friday 17 April 2015

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا
شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا
ہوں گے مِرے وجود کے سائے الگ الگ
ورنہ برونِ دَر بھی، پسِ دَر بھی میں ہی تھا
آخر مجھے پناہ ملی اپنے آپ میں
رقصاں ہو جس میں رُوح، وہ پیکر بھی میں ہی تھا
پوچھ ان سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے
راہِ وفا میں شاخِ صنوبر بھی میں ہی تھا
آسودہ کس قدر وہ ہُوا مجھ کو اوڑھ کر
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا
مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہمسری
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہُوا قتیلؔ
ملکِ ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment