Friday, 17 April 2015

تیز ہے سودائے مژگان نگار اب کے برس

تیز ہے سودائے مژگانِ نگار اب کے برس
کوڑیوں کے مول بکتے ہیں کٹار اب کے برس
بادہ نوشی پر رہا دار و مدار اب کے برس
طاق پر رکھے رہے سب کاروبار اب کے برس
ہوش کس کو ہے جو پہنائے کسی کو بیڑیاں
ہو رہے آپ دیوانے لوہار، اب کے برس
خوب اپنا ساقئ دریا دل اپنے ساتھ ہے
کھیلتے پھِریے بطِ مے کا شکار اب کے برس
ہو گئی فرقت میں اک اک شاخ سوہانِ روح
دل کو برمانے لگی صوتِ ہزار اب کے برس
ابرِ تر پر پھبتیاں ہوں گی کفِ سیلاب کی
جوش پر ہے گریۂ بے اختیار اب کے برس
اے صباؔ جب سے ابھی تک ہے خزاں کا دور دور
آئے گی بھی یا نہ آئے گی بہار اب کے برس

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment