Friday 17 April 2015

کیا خبر کب نیند آئے دیدہ بے خواب میں

کیا خبر کب نیند آئے دیدۂ بے خواب میں
شام سے ہم جل رہے ہیں سایۂ مہتاب میں
اب تمہاری یاد سے پڑتے ہیں یوں دل میں بھنور
جیسے کنکر پھینک دے کوئی بھرے تالاب میں
جس گلی میں گھر تمہارا ہے، کرو اس کا خیال
ہم تو ہیں بدنام اپنے حلقۂ احباب میں
اہلِ دل جاتے تھے پہلے صرف مقتل کی طرف
خودکشی بھی  اب ہے شامل عشق کے احباب میں
یوں کسی کا پیار آغوشِ ہوس میں جا چھپا
کوئی لاشہ جس طرح لِپٹا ہوا کمخواب میں
رحمتِ یزداں سے مانگی ہم نے دو چھینٹوں کی بھیک
وہ ہوا جل تھل کہ بستی بہہ گئی سیلاب میں
گردشِ دوراں کی زد میں یوں ہے اپنی زندگی
جیسے چکراتی ہو کشتی حلقۂ گرداب میں
وادئ سربن میں تھیں جو مہربان مجھ پر قتیلؔ
وہ بہاریں ڈھونڈتی ہیں اب مجھے پنجاب میں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment