کیا خبر کب نیند آئے دیدۂ بے خواب میں
شام سے ہم جل رہے ہیں سایۂ مہتاب میں
اب تمہاری یاد سے پڑتے ہیں یوں دل میں بھنور
جیسے کنکر پھینک دے کوئی بھرے تالاب میں
جس گلی میں گھر تمہارا ہے، کرو اس کا خیال
اہلِ دل جاتے تھے پہلے صرف مقتل کی طرف
خودکشی بھی اب ہے شامل عشق کے احباب میں
یوں کسی کا پیار آغوشِ ہوس میں جا چھپا
کوئی لاشہ جس طرح لِپٹا ہوا کمخواب میں
رحمتِ یزداں سے مانگی ہم نے دو چھینٹوں کی بھیک
وہ ہوا جل تھل کہ بستی بہہ گئی سیلاب میں
گردشِ دوراں کی زد میں یوں ہے اپنی زندگی
جیسے چکراتی ہو کشتی حلقۂ گرداب میں
وادئ سربن میں تھیں جو مہربان مجھ پر قتیلؔ
وہ بہاریں ڈھونڈتی ہیں اب مجھے پنجاب میں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment