کیا عشق تھا جو باعثِ رُسوائی بن گیا
یارو! تمام شہر تماشائی بن گیا
ب،ن مانگے مل گئے مِری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دستِ حنائی قریب سے
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہِ شناسائی بن گیا
پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشۂ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ مِرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکرِ دانائی بن گیا
کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment