کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
کوئی پتھر تان رہا ہے شیشے کی دیوار کے پیچھے
دل میں آگ لگا جاتا ہے یہ بِن یار، بہار کا موسم
ایک تپش بھی ہوتی ہے اس ٹھنڈی ٹھار پھوار کے پیچھے
سوچ ابھی سے، پھر کیا ہو گا، بیت گئی جب رات ملن کی
کون لگائے کھوج کسی کا خودغرضی کے اس جنگل میں
ملتا ہے انسان یہاں پر، لیکن ایک ہزار کے پیچھے
ننگی ہو کر ناچ رہی ہے بھوکی روحوں کی مجبوری
جھانک سکو تو جھانک کے دیکھو جسموں کے انبار کے پیچھے
یہ حاکم بھی دوست ہے میرا، یہ ناصح بھی میرا ہمدم
کتنے ہی غمخوار پڑے ہیں اک تیرے بیمار کے پیچھے
تیرا تو اک دل ٹوٹا ہے یار قتیلؔ! اداس نہ ہو تُو
لوگ تو جان بھی دے دیتے ہیں پیارے اپنے یار کے پیچھے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment