Thursday, 16 April 2015

صحرا کی تیز گرم ہوا سا مزاج تھا

صحرا کی تیز گرم ہوا سا مزاج تھا
ظاہر میں جس کا بادِ صبا سا مزاج تھا
اپنی بھی دوستوں سے کچھ ایسی بنی نہیں
اپنا بھی دوستوں میں کھرّا سا مزاج تھا
گاہے وہ مہربان تھا، گاہے تھا بے نیاز
اک شخص کا عجیب خدا سا مزاج تھا
اک وقت تھا قبول دعا ہو گئی تھی جب
اک رات تھی جب اس کا گھٹا سا مزاج تھا
رہتے تھے دشتِ عشق میں کُوفہ مزاج لوگ
اور دشت کا بھی کرب و بلا سا مزاج تھا
میں بدمزاج اوروں کی خاطر تھا افتخارؔ
اس واسطے تو حرفِ دُعا سا مزاج تھا

افتخار حیدر

No comments:

Post a Comment