Friday 17 April 2015

قصور وار ہیں سب اعتراف کون کرے

قصور وار ہیں سب، اعتراف کون کرے
سزا کا فیصلہ اپنے خلاف کون کرے
بڑے خلوص سے مِلتے ہیں ظاہراً سب دوست
کسی کے دل میں ہے کیا، انکشاف کون کرے
ہزار تلخ سہی، ذائقہ حقائق کا
حقیقتوں سے مگر انحراف کون کرے
کھڑی ہے راہ میں کہنہ روایتوں کی فصیل
ہے کس میں حوصلہ، اس میں شگاف کون کرے
ہو صاف آئینۂ دل تو کچھ نظر آئے
اس آئینے سے مگر گَرد صاف کون کرے
محاسبہ بھی ضروری تو ہے، مگر حامدؔ
خود اپنے آپ کو، اپنے خلاف کون کرے

حامد یزدانی​

No comments:

Post a Comment