Saturday 18 April 2015

ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں فسانے کا

ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں فسانے کا
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اُس کے آنے کا
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
یہ خواب زاد ہے کردار کِس فسانے کا
کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں ہے اس پر ابھی زمانے کا
ابھی میں ایک محاذِ دگر پہ الجھی ہوں
چنا ہے وقت یہ کیا مجھ کو آزمانے کا
کچھ اس طرح کا پُراسرار ہے تیرا لہجہ
کہ جیسے راز کُشا ہو کسی خزانے کا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment