سورج کی دمک، بجلی کی چمک، ساون کا ہرا بن دیکھا ہے
رنگین ملائم پتوں کی سرسر سے بھرا بن دیکھا ہے
دیوارِ فلک محرابِ زماں سب دھوکے آتے جاتے ہوئے
یہ ایک حقیقت ہم پہ کھلی جب سے کھلا بن دیکھا ہے
میراثِ جہاں اک عہدِ وفا کسی خواب زندہ رہنے کا
کبھی باب ہوا کبھی، سبز ردا، کبھی راز ہزاروں صدیوں کا
ہر لمحہ رنگ بدلتا ہوا ہر آن نیا بن دیکھا ہے
دیکھا ہے اس اس گھر میں مگر لگتا ہے منیرؔ ایسا مجھ کو
دریا کنارے پر جیسے پانی میں گھِرا بن دیکھا ہے
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment