Saturday 11 April 2015

دامن ضبط بھگو دینے کو جی چاہتا ہے

دامنِ ضبط بھگو دینے کو جی چاہتا ہے
اتنا تنہا ہوں کہ رو دینے کو جی چاہتا ہے
سانس کی ڈور سلامت ہے ابھی تک شاید
اب یہ احساس بھی کھو دینے کو جی چاہتا ہے
شاخِ گل جب بھی تہی دست نظر آتی ہے
اپنا دل اس میں پرو دینے کو جی چاہتا ہے
ایک گمنام مسافر کی طرح چپکے سے
خود کو اس بھیڑ میں کھو دینے کو جی چاہتا ہے
اِک رِدا خاک کی ہر دکھ سے دلا دے گی نجات
خود کو مٹی میں سمو دینے کو جی چاہتا ہے
درد ایسا ہے کہ مرہم کے بجائے ساجد
دل میں نشتر سا چبھو دینے کو جی چاہتا 

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment