Thursday 2 April 2015

ہیں یوں تو بہت آپ کی قربت سے بھی محروم

ہیں یوں تو بہت آپ کی قُربت سے بھی محروم
ہم لوگ کہ ہیں، اپنی رفاقت سے بھی محروم
ہر لمحہ ہیں اک ہجرِ مسلسل کی فضا میں
پھر بھی ہیں، غمِ ہجر کی راحت سے بھی محروم
صحرا کی طرح ہے کہ شجر ہیں نہ کہیں پھول
جو ذہن ہے شعروں کی لطافت سے بھی محروم
اف، اتنی تگ و تاز کے باوصف بھی کچھ لوگ
شہرت سے بھی محروم ہیں عزت سے بھی محروم
مانگی ہوئی بیساکھیاں کچھ کام نہ آئیں
اور ہو گئے اصل قد و قامت سے بھی محروم
حیرت ہے کسی نے بھی نوازا نہیں ان کو
جاہل بھی ہیں، دستارِ فضیلت سے بھی محروم ​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment