آپ اس طرح تو ہوش اڑایا نہ کیجیے
یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے
یا سر پہ آدمی کو بٹھایا نہ کیجیے
یا پھر نظر سے اس کو گرایا نہ کیجیے
یوں مد بھری نگاہ اٹھایا نہ کیجیے
کہیے تو آپ محو ہیں کس کے خیال میں
ہم سے تو دل کی بات چھپایا نہ کیجیے
تیغِ ستم سے کام جو لینا تھا، ہو چکا
اہلِ وفا کا یوں تو صفایا نہ کیجیے
میں آپ کا، گھر آپ کا، آئیں ہزار بار
لیکن کسی کی بات میں آیا نہ کیجیے
اٹھ جائیں گے ہم آپ کی محفل سے آپ ہی
دشمن کے روبرو تو بٹھایا نہ کیجیے
دل دور ہوں تو قُرب کی صورت کہاں رہی
رسماً کسی سے ہاتھ ملایا نہ کیجیے
محروم ہوں لطافتِ فطرت سے جو نصیرؔ
ان بے حسوں کو شعر سنایا نہ کیجیے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment