Friday 10 April 2015

دیکھا نہیں خواب دلآراز سے آگے

دیکھا نہیں خوابِ دلآراز سے آگے
سوچا ہی نہیں ہم نے غمِ یار سے آگے
ہے مسکنِ خوباں کہ کوئی عالمِ ہُو ہے
موجود ہے کیا سایۂ دیوار سے آگے
اک حرفِ تأسّف ہی تھا انجام مسلسل
افسوس تھا آغاز کے اقرار سے آگے
آتا ہی نہیں یاد جو ہے یاد سے پیچھے
کچھ وہم سے ہیں ثابت و سیّار سے آگے
دیدارِ رُخِ یار کوئی پردہ ہے شاید
ہے راز کوئی پردۂ دیدار سے آگے
لگتا ہے منیرؔ ایسا کہ کچھ بھول گئے ہیں
اک بات جو ہے خواہشِ اِظہار سے آگے

منیر نیازی​

No comments:

Post a Comment