Friday 17 April 2015

ہر سمت نفرتوں کا ہے بیوپار میرے دوست

ہر سمت نفرتوں کا ہے بیوپار میرے دوست
کرتا نہیں کسی سے کوئی پیار میرے دوست
سورج دکھا کے لَو بھی چراغوں کی چھین لی
دھوکا ہوا ہے ہم سے تو ہر بار میرے دوست
کب تک چھپا رہے گا تُو دل کی گپھاؤں میں
باہر نکل کے مل مجھے اک بار میرے دوست
کس سے مکالمہ ہے غزل کی زبان میں
تُو بھی سمجھ سکا نہ مِرے یار! میرے دوست
لہروں کے ہمقدم ہیں ستاروں کے قافلے
رہتا ہے کون جھیل کے اس پار میرے دوست
ہونا تو ہے کہیں مجھے ہستی کے کھیل میں
طے ہو نہیں سکا مِرا کردار میرے دوست

حامد یزدانی​

No comments:

Post a Comment