ہر سمت نفرتوں کا ہے بیوپار میرے دوست
کرتا نہیں کسی سے کوئی پیار میرے دوست
سورج دکھا کے لَو بھی چراغوں کی چھین لی
دھوکا ہوا ہے ہم سے تو ہر بار میرے دوست
کب تک چھپا رہے گا تُو دل کی گپھاؤں میں
باہر نکل کے مل مجھے اک بار میرے دوست
کس سے مکالمہ ہے غزل کی زبان میں
تُو بھی سمجھ سکا نہ مِرے یار! میرے دوست
لہروں کے ہمقدم ہیں ستاروں کے قافلے
رہتا ہے کون جھیل کے اس پار میرے دوست
ہونا تو ہے کہیں مجھے ہستی کے کھیل میں
طے ہو نہیں سکا مِرا کردار میرے دوست
حامد یزدانی
کرتا نہیں کسی سے کوئی پیار میرے دوست
سورج دکھا کے لَو بھی چراغوں کی چھین لی
دھوکا ہوا ہے ہم سے تو ہر بار میرے دوست
کب تک چھپا رہے گا تُو دل کی گپھاؤں میں
باہر نکل کے مل مجھے اک بار میرے دوست
کس سے مکالمہ ہے غزل کی زبان میں
تُو بھی سمجھ سکا نہ مِرے یار! میرے دوست
لہروں کے ہمقدم ہیں ستاروں کے قافلے
رہتا ہے کون جھیل کے اس پار میرے دوست
ہونا تو ہے کہیں مجھے ہستی کے کھیل میں
طے ہو نہیں سکا مِرا کردار میرے دوست
حامد یزدانی
No comments:
Post a Comment