Friday 3 April 2015

جیسے یاد انبساط غم شکیبائی کے بعد

جیسے یادِ انبساطِ غم شکیبائی کے بعد
دیر تک روتے رہے ہم بزم آرائی کے بعد
اے سرشتِ شوق! اب ناپید ہو کر دیکھ لے
اور کیا ہونا ہے اس ہونے کی رسوائی کے بعد
خود کو پا لینے کی حسرت میں بہت رسوا ہوئے
کچھ سوا رسوائیاں ہیں اب شناسائی کے بعد
بے مسافت اک سفر درپیش رہنا چاہیے
سوچتے ہیں عمر بھر کی جادہ پیمائی کے بعد
کل میں خود سے سلسلہ در سلسلہ ملتا رہا
عالمِ تنہائی جیسے دشتِ تنہائی کے بعد
ہے وہی صحرا، مگر شاداب کتنا ہو گیا
رہروایانِ جنوں کی آبلہ پائی کے بعد
دل میں اب پہلی سی وہ گنجائشیں باقی نہیں
پہلے اک دالان آ جاتا تھا انگنائی کے بعد

پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment