Sunday 5 April 2015

سود در سود

سُود در سُود

اتنی مہلت کہاں کہ گھُٹنوں سے
سر اُٹھا کر فلک کو دیکھ سکوں
اپنے ٹکڑے اٹھاؤں دانتوں سے
ذرّہ ذرّہ کُریدتا جاؤں
چھیلتا جاؤں ریت سے افشاں
وقت بیٹھا ہوا ہے گردن پر
توڑتا جا رہا ہے ٹکڑوں میں
زندگی دے کے بھی نہیں چُکتے
زندگی کے جو قرض دینے ہیں

گلزار

No comments:

Post a Comment