کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جُز متاعِ جاں
اب اس سے بڑھ کے اور بھی کوئی ہے امتحاں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
دل سے دماغ و حلقۂ عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
جنگل میں بھیڑیوں سے سوا کون معتبر
جس کے سپرد کیجئے اقلیمِ جسم و جاں
اب اس سے بڑھ کے اور بھی کوئی ہے امتحاں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
دل سے دماغ و حلقۂ عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
اس بے وفا پہ بس نہیں چلتا تو کیا ہوا
اڑتی رہیں گی اپنے گریباں کی دھجیاںہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
جنگل میں بھیڑیوں سے سوا کون معتبر
جس کے سپرد کیجئے اقلیمِ جسم و جاں
اسرار ناروی
ابن صفی
No comments:
Post a Comment