Tuesday 14 April 2015

کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جز متاع جاں

کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جُز متاعِ جاں
اب اس سے بڑھ کے اور بھی کوئی ہے امتحاں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
دل سے دماغ و حلقۂ عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
اس بے وفا پہ بس نہیں چلتا تو کیا ہوا
اڑتی رہیں گی اپنے گریباں کی دھجیاں
ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
جنگل میں بھیڑیوں سے سوا کون معتبر
جس کے سپرد کیجئے اقلیمِ جسم و جاں 

اسرار ناروی

No comments:

Post a Comment