Thursday, 2 April 2015

آج پھر ستائے گی رات پورے چاند کی

آج پھر ستائے گی رات پورے چاند کی
دربدر پھرائے گی رات پورے چاند کی
بام و در کی قید میں روح پھڑپھڑائے گی
وحشتیں بڑھائے گی رات پورے چاند کی
جس طرف میں جاؤں گا میرے سائے کی طرح
میرے ساتھ جائے گی رات پورے چاند کی
یہ سمندری ہوا، اس پہ قرب کا نشہ
کتنے ظلم ڈھائے گی رات پورے چاند کی
ایسا لگ رہا ہے اب، تُو اگر بچھڑ گیا
لوٹ کر نہ آئے گی رات پورے چاند کی
قمقموں کے شہر میں اپنی اپنی سیج پر
صبح تک جگائے گی رات پورے چاند کی
آج ہی سے چھوڑ دے میرا ہاتھ ورنہ پھر
عمر بھر رلائے گی رات پورے چاند کی​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment