اِک اجنبی سی راہ تھی، لمبا سفر رہا
اِک رشتۂ فراق تھا، جو عمر بھر رہا
تھے ایک ہی مکان میں زنداں الگ، الگ
وہ اپنے گھر میں قید، تو میں اپنے گھر رہا
تھی مے کدے کی شام ، وہ آہو تھا زیرِ دام
تھی زندگی نواز، کسی کی نگاہِ ناز
میرا نصیب موت تھی، سو میں تو مر رہا
دل بھی تو اِک گلاب تھا، پژمُردہ ہو گیا
ضربِ ہوائے ہجر سے ٹوٹا، بکھر رہا
گو رب کے ذکر میں تھی بڑی مصلحت، مگر
مسلک فقیہِ شہر کا تحصیلِ زر رہا
مسعودؔ میں ہوں کُشتۂ حیرت یہ سوچ کر
اُس سنگ کا شکار ہی کیوں میرا سر رہا
مسعود منور
No comments:
Post a Comment