ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آوازِ جرس
پیش و پس سے بےخبر گھر سےنکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سر نیوڑھائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند، اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ! ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو، سنتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں لوگ
حمایت علی شاعر
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آوازِ جرس
پیش و پس سے بےخبر گھر سےنکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سر نیوڑھائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند، اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ! ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو، سنتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں لوگ
حمایت علی شاعر
No comments:
Post a Comment