Friday 15 August 2014

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آوازِ جرس
پیش و پس سے بےخبر گھر سےنکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سر نیوڑھائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند، اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ! ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو، سنتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں لوگ

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment