Thursday 7 August 2014

اگلا سفر طویل نہیں

اگلا سفر طویل نہیں

 وہ دن بھی آئے ہیں، اس کی سیاہ زلفوں میں
 کپاس کھلنے لگی ہے، جھلکتی چاندی کے
 کشیدہ تار چمکنے لگے ہیں بالوں میں
 وہ دن بھی آئے ہیں، سرخ و سپید بالوں میں
 دھنک کا کھیلنا ممنوع ہے، لبوں پہ فقط
 گلوں کی تازگی اک سایۂ گریزاں ہے
 وہ دن بھی آئے ہیں، اس کے صبیح چہرے پر
کہیں کہیں کوئی سلوٹ ابھر سی آئی ہے
 ذرا سی مضمحل، تھوڑی تھکی تھکی سی نظر
 تلاش کرتی ہے عمرِ گریز پا کے نقوش
اسے بھی لگتا تو ہو گا کہ میں وہی ہوں، مگر
خزاں گزیدہ، تھکا سا، اُداس، رنجیدہ
 اسے بھی لگتا تو ہو گا کہ ہم وہی ہیں، مگر
 دل و دماغ کی باہم سپردگی کےدن
 نہ جانے عمر کے کس مرحلے پہ چھوٹ گئے
 میں چاہتا ہوں کبھی بات کر کے دیکھوں تو
 کہوں کہ جسم تو اک عارضی حقیقت ہے
 کہوں درونِ دل و جاں جو ایک عالم ہے
 وہاں تو وقت کا احساس تک نہیں ہوتا
 کہوں کہ عمر سے شکوہ، گِلہ جوانی سے
 لبوں پہ حرفِ شکایت، دلوں میں تلخی سی
 علیل جذبے ہیں، ان سے ہمارا کیا رشتہ؟
 کہوں کہ آج بھی صبحِ شبِ وصال کے دن
 ہماری روح میں کھلتے ہیں، آؤ ساتھ چلیں
 پکڑ کے ہاتھ، کہ اگلا سفر طویل نہیں

ستیہ پال آنند

No comments:

Post a Comment