Tuesday 12 August 2014

دوا، دعا سے گزر کر خدا تک آ ہی گئے

دوا، دعا سے گزر کر خُدا تک آ ہی گئے
ترے مریض، دیارِ شفا تک آ ہی گئے
جو قیدِ ہجر کے دیرینہ انجماد میں تھے
وہ سرد ہاتھ بھی بندِ قبا تک آ ہی گئے
جو ہونٹ صرف لرزتے تھے، کپکپاتے تھے
وہ چُپ کے شور سے بچ کر، صدا تک آ ہی گئے
ہم ایسے بے سرو ساماں، گناہگار فقیر
یہ معجزہ ہے کہ غارِ حرا تک آ ہی گئے
ہم آسمانِ عبادت کے زمزمہ پرداز
نواحِ عرش میں حمد و ثنا تک آ ہی گئے
بنامِ حشر لکھی، خود ہی اپنی فردِ عمل
ہم آپ، اپنے کیے کی سزا تک آ ہی گئے
جفائیں جن کے مقدر کا رزق تھیں مسعودؔ
وہ پاؤں خیر سے کوئے وفا تک آ ہی گئے

مسعود منور

No comments:

Post a Comment