Sunday 8 January 2023

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

حاصل ہے مجھے گھر بھی یہاں لُطفِ سفر بھی

جن آنکھوں سے دیکھا تھا اِدھر دیکھ اُدھر بھی

کیا چیز ہے ظالم تِری دُزدیدہ نظر بھی

اتنا ہے ادب آمدِ گُل رو کا چمن میں

خاموش ہیں بیٹھے ہوئے مرغان سحر بھی

بیدار وہ ہو جاتے تھے غنچوں کی چٹک سے

اب ان کو جگاتا نہیں چلا کے گجر بھی

معمور تصور سے یہ ہے خانۂ دل آج

اس شیشے میں تصویر ادھر بھی ہے ادھر بھی

لخت جگرو! اشک نہیں مُوئے مژہ پر

دیکھو شجر خشک میں گُل بھی ہے ثمر بھی

خونِ شہداء رنگ مگر لائے گا اک روز

آفت کوئی آ جائے گی شمشیر کے سر بھی

کی محفل اغیار میں جھک کر اسے تسلیم

ہنس کر کہا زندہ ہے ابھی تو کہیں مر بھی

لو اور سنو شعر مِرے سن کے وہ بولا

آتا ہے بجز اس کے کوئی اور ہنر بھی

کس طرح نہ پہلو میں رقیبوں کو جگہ دے

آغوش میں ہر سنگ کے ہوتا ہے شرر بھی

تم قبر پر آئے ہو مِری پھول چڑھانے

مجھ پر ہے گراں سایۂ برگ گل تر بھی

شیشے کی طرح صاف ہے اتنا تن نازک

آتا ہے لطافت سے نظر عکس نظر بھی

پروانے گرے پڑتے تھے اس بزم میں لاکھوں

سر دھنتی تھی حسرت سے کھڑی شمع سحر بھی

مٹھی میں ہے دل ان کی سن لو پھر یہ ڈھٹائی

واللہ جو ہو مِرے فرشتوں کو خبر بھی

کس شان سے وہ آئے تھے گلگشت چمن کو

اک رقص کے عالم میں تھے مرغان سحر بھی

تو وہ گُلِ رعنا ہے جو آ جائے چمن میں

جھوما کریں اک وجد کے عالم میں شجر بھی

آرام کسی کو بھی نہیں بحر جہاں میں

گردش میں جو ہے موج تو چکر میں بھنور بھی

تھا بعد فنا بھی یہ غضب ضعف کا عالم

پہونچی نہ وہاں تک مِرے مرنے کی خبر بھی

منزل تھی عدم کی خس و خاشاک سے یہ پاک

دامن پہ نہ رہرو کے پڑی گردِ سفر بھی

معراج مِری خاک نے پائی یہ ہوا سے

قاصر ہے پہنچنے سے وہاں پیک خبر بھی

منزل عدم آباد کی آسان ہے اتنی

رفتار کی ہوتی نہیں رہرو کو خبر بھی

ہیبت ہے ابھی تک یہ ہماری شب غم کی

کافور ہوا جاتا ہے کافورِ سحر بھی

یہ رعب ہے چھایا ہوا شام شب غم کا

دیتا نہیں آواز بجانے سے گجر بھی

احباب مِرے غسل و کفن سے ہوئے فارغ

لو اب تو مہیا ہوئے سامان سفر بھی

گھبرا کے کہو کیا کریں اب کنج لحد میں

ہم کو تو یہیں شام بھی کرنی ہے سحر بھی

اے عرش وہ دم خم وہ کہاں جوش ہے باقی

اک موت ہے تسلیم کے مرنے کی خبر بھی

منزل عدم آباد کی دشوار ہے اے عرش

لازم ہے مسافر کے لیے زادِ سفر بھی


عرش گیاوی

No comments:

Post a Comment