مجھ سے تنہائی میں وحشت یوں جڑی رہتی ہے
جیسے دِیوار سے تصویر لگی رہتی ہے
ہم فرشتہ ہی کہیں گے اسے، انسان نہیں
آنکھ جس کی تِری محفل میں جُھکی رہتی ہے
میں تمہیں دل میں جگہ دے دوں مگر ایک سوال
کہیں شیشے کے قفس میں بھی پری رہتی ہے؟
ہم گُناہوں کے تكدّر میں دَبے ایسے ہیں
جیسے ملبے میں کوئی لاش دَبی رہتی ہے
میں نے اس شخص سے پُوچھا تھا؛ بتا دُکھ کیا ہے
جس کے چہرے پہ مُسلسل ہی ہنسی رہتی ہے
اُس کے ہونٹوں پہ مِرا نام یوں جچتا ہے اریب
جیسے سِگریٹ تِرے لب پہ سجی رہتی ہے
اریب عثمانی
No comments:
Post a Comment