جن سے پردہ نہیں ان لوگوں سے پردہ کر کے
دیکھتی تھی وہ مجھے آئینہ ترچھا کر کے
میں نے اتنی کسی ویرانی کی خدمت کی ہے
مجھ کو یہ بُڑھیا بلانے لگی بیٹا کر کے
خالی خطرے سے نہیں ہے یہ فقیری کی گلی
اک طوائف بھی یہاں رہتی ہے دنیا کر کے
جیسے ہو ویسے دکھاتے نہیں کیوں لوگوں کو
خود کوکیوں پہنے ہوئے پھرتے ہو اُلٹا کر کے
مارنے کے لیے جب آئی چراغوں کو ہوا
کچھ چراغوں نے مدد کی تھی اجالا کر کے
مصر کی تخت نشینی سے ذرا سا پہلے
آخری امتحان آتا ہے زلیخا کر کے
میں نہیں کہتا تھا تم مجھ سے ملو میرے سمیت
کیا ملا ہے تمھیں مجھ سے مجھے منہا کر کے
ہے بس اک کال کی دوری پہ یہ دنیا لیکن
توڑ دیتا ہوں میں ہرروز ارادہ کر کے
ہوگئی بڑھ کے توقع سے تشفّی میری
اتنا مشہور ہوا وہ مجھے رسوا کر کے
اس کو اتنا بھی نہ تم سر پہ چڑھاؤ جانی
پھینک جائے گی جوانی تمھیں بوڑھا کر کے
قدر بڑھتی نہیں ارمان کسی یوسف کی
جب تلک بھائی نہیں بیچتے سستا کر کے
علی ارمان
No comments:
Post a Comment