ذرا سی چوٹ لگی تھی کہ چلنا بھول گئے
شریف لوگ تھے گھر سے نکلنا بھول گئے
تِری امید پہ شاید نہ اب کھرے اتریں
ہم اتنی بار بجھے ہیں کہ جلنا بھول گئے
تمہیں تو علم تھا بستی کے لوگ کیسے ہیں
تم اس کے بعد بھی کپڑے بدلنا بھول گئے
ہمیں تو چاند ستاروں کو رسوا کرنا تھا
سو جان بوجھ کے اک روز ڈھلنا بھول گئے
حسیب سوز جو رسی کے پل پہ چلتے تھے
پڑا وہ وقت کہ سڑکوں پہ چلنا بھول گئے
حسیب سوز
No comments:
Post a Comment